EN हिंदी
اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے | شیح شیری
uski aankhon mein utar jaane ko ji chahta hai

غزل

اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

کفیل آزر امروہوی

;

اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے
ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے

ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن
اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے

قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے
ذات میں اپنی بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

اپنی پلکوں پہ سجائے ہوئے یادوں کے دیے
اس کی نیندوں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے

ایک اجڑے ہوئے ویران کھنڈر میں آذرؔ
نا مناسب ہے مگر جانے کو جی چاہتا ہے