اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے
ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن
اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے
قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے
ذات میں اپنی بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
اپنی پلکوں پہ سجائے ہوئے یادوں کے دیے
اس کی نیندوں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک اجڑے ہوئے ویران کھنڈر میں آذرؔ
نا مناسب ہے مگر جانے کو جی چاہتا ہے
غزل
اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
کفیل آزر امروہوی