سانحہ یہ بھی اک روز کر جاؤں گا
وقت کی پالکی سے اتر جاؤں گا
اپنے ٹوٹے ہوئے خواب کی کرچیاں
تیری آسودہ آنکھوں میں بھر جاؤں گا
روشنی کے سفینے بلاتے رہیں
ساحل شب سے ہو کر گزر جاؤں گا
اجنبی وادیاں کوئی منزل نہ گھر
راستے میں کہیں بھی اتر جاؤں گا
میرے دشمن کے دل میں جو برسوں سے ہے
وہ خلا بھی میں اک روز بھر جاؤں گا
دوستوں سے ملاقات کی شام ہے
یہ سزا کاٹ کر اپنے گھر جاؤں گا
غزل
سانحہ یہ بھی اک روز کر جاؤں گا
مظہر امام