EN हिंदी
تعظیم شیاری | شیح شیری

تعظیم

112 شیر

رات کو جیت تو پاتا نہیں لیکن یہ چراغ
کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے

عرفانؔ صدیقی




اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

عرفانؔ صدیقی




ان اندھیروں سے پرے اس شب غم سے آگے
اک نئی صبح بھی ہے شام الم سے آگے

عشرت قادری




کنارے ہی سے طوفاں کا تماشا دیکھنے والے
کنارے سے کبھی اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا

جگن ناتھ آزادؔ




راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے

جلیل عالیؔ




جلانے والے جلاتے ہی ہیں چراغ آخر
یہ کیا کہا کہ ہوا تیز ہے زمانے کی

جمیلؔ مظہری




آستاں بھی کوئی مل جائے گا اے ذوق نیاز
سر سلامت ہے تو سجدہ بھی ادا ہو جائے گا

جگر بریلوی