ان اندھیروں سے پرے اس شب غم سے آگے
اک نئی صبح بھی ہے شام الم سے آگے
دشت میں کس سے کریں آبلہ پائی کا گلا
رہنما کوئی نہیں نقش قدم سے آگے
ساز میں کھوئے رہے سوز نہ سمجھا کوئی
درد کی ٹیس تھی پازیب کی چھم سے آگے
اے خوشا عزم جواں ذوق سفر جوش طلب
حادثے بڑھ نہ سکے اپنے قدم سے آگے
یاد ہے لذت آزار محبت اب تک
دل کو ملتا تھا سکوں مشق ستم سے آگے
سرخ رو ہے جہاں تاریخ دو عالم عشرتؔ
خون ٹپکا ہے وہیں نوک قلم سے آگے
غزل
ان اندھیروں سے پرے اس شب غم سے آگے
عشرت قادری