راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے
آگ ہی آگ ہو سینے میں تو کیا پھول جھڑیں
شعلہ ہوتی ہے زباں لفظ شرر بنتا ہے
زندگی سوچ عذابوں میں گزاری ہے میاں
ایک دن میں کہاں انداز نظر بنتا ہے
مدعی تخت کے آتے ہیں چلے جاتے ہیں
شہر کا تاج کوئی خاک بسر بنتا ہے
عشق کی راہ کے معیار الگ ہوتے ہیں
اک جدا زائچۂ نفع و ضرر بنتا ہے
اپنا اظہار اسیر روش عام نہیں
جیسے کہہ دیں وہی معیار ہنر بنتا ہے
غزل
راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
جلیل عالیؔ