جانے کیا دیکھا تھا میں نے خواب میں
پھنس گیا پھر جسم کے گرداب میں
تیرا کیا تو تو برس کے کھل گیا
میرا سب کچھ بہہ گیا سیلاب میں
میری آنکھوں کا بھی حصہ ہے بہت
تیرے اس چہرے کی آب و تاب میں
تجھ میں اور مجھ میں تعلق ہے وہی
ہے جو رشتہ ساز اور مضراب میں
میرا وعدہ ہے کہ ساری زندگی
تجھ سے میں ملتا رہوں گا خواب میں
غزل
جانے کیا دیکھا تھا میں نے خواب میں
شہریار