EN हिंदी
عشق میں بو ہے کبریائی کی | شیح شیری
ishq mein bu hai kibriyai ki

غزل

عشق میں بو ہے کبریائی کی

بقا اللہ بقاؔ

;

عشق میں بو ہے کبریائی کی
عاشقی جس نے کی خدائی کی

ہم سری مت صبا سے کر اے آہ
تو نے بھی کچھ گرہ کشائی کی

لے چلے ہم قفس سے اے صیاد
خاک میں آرزو رہائی کی

روز محشر تلک نہ آخر ہوں
داستانیں شب جدائی کی

شیخ جیو سے ہوئی نہ سرزد باو
چول بولی ہے چارپائی کی

جس میں یاران بزم ہوں محظوظ
یوں بقاؔ میں غزل سرائی کی

میر بھی ورنہ خوب کہتے ہیں
کاٹیے جیب ان کی دائی کی