EN हिंदी
موٹ شیاری | شیح شیری

موٹ

80 شیر

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے

حیدر علی آتش




موت سے پہلے جہاں میں چند سانسوں کا عذاب
زندگی جو قرض تیرا تھا ادا کر آئے ہیں

حیدر قریشی




درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی
موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی

حکیم محمد اجمل خاں شیدا




اپنے کاندھوں پہ لیے پھرتا ہوں اپنی ہی صلیب
خود مری موت کا ماتم ہے مرے جینے میں

حنیف کیفی




اے ہجر وقت ٹل نہیں سکتا ہے موت کا
لیکن یہ دیکھنا ہے کہ مٹی کہاں کی ہے

ہجرؔ ناظم علی خان




اے اجل ایک دن آخر تجھے آنا ہے ولے
آج آتی شب فرقت میں تو احساں ہوتا

امام بخش ناسخ




خوب و زشت جہاں کا فرق نہ پوچھ
موت جب آئی سب برابر تھا

امداد امام اثرؔ