EN हिंदी
موٹ شیاری | شیح شیری

موٹ

80 شیر

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

امیر مینائی




پتلیاں تک بھی تو پھر جاتی ہیں دیکھو دم نزع
وقت پڑتا ہے تو سب آنکھ چرا جاتے ہیں

امیر مینائی




موت ہی انسان کی دشمن نہیں
زندگی بھی جان لے کر جائے گی

عرش ملسیانی




زندگی کی بساط پر باقیؔ
موت کی ایک چال ہیں ہم لوگ

باقی صدیقی




رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر
عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا

بشیر بدر




وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں
انہیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے

بشیر بدر




بندھن سا اک بندھا تھا رگ و پے سے جسم میں
مرنے کے بعد ہاتھ سے موتی بکھر گئے

بشیر الدین احمد دہلوی