میرے سر میں جو رات چکر تھا
اس کے زانو پہ غیر کا سر تھا
اپنے گھر ان کو کیا بلاتے ہم
بوریا بھی نہیں میسر تھا
ضبط دل پر بھی اس کی محفل میں
اپنا رومال اشک سے تر تھا
جان دینے میں سوچ کیا کرتے
مفلسی پر بھی دل تونگر تھا
خوب و زشت جہاں کا فرق نہ پوچھ
موت جب آئی سب برابر تھا
آپ جب تک نہ لے چکے تھے دل
کچھ مزاج اور بندہ پرور تھا
ہجر لاحق ہوا وصال کے بعد
کیا ہی الٹا مرا مقدر تھا
جور اعدا کی تاب کیا لاتا
دل کم بخت ناز پرور تھا
صحبت حور سے ہوئی نفرت
میں جو تیری ادا کا خوگر تھا
ہے اثرؔ یا نہیں خدا جانے
سنتے ہیں اس کا حال ابتر تھا
غزل
میرے سر میں جو رات چکر تھا
امداد امام اثرؔ