درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی
موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی
ہوگی جب نالوں کی اپنے زیر گردوں بازگشت
میرے درد دل کی شہرت جا بجا ہو جائے گی
کوئے جاناں میں اسے ہے سجدہ ریزی کا جو شوق
میری پیشانی رہین نقش پا ہو جائے گی
کاکل پیچاں ہٹا کر رخ سے آؤ سامنے
پردہ دار حسن محفل میں ضیا ہو جائے گی
جب یہ سمجھوں گا کہ میری زیست ہے ممنون مرگ
موت میری زندگی کا آسرا ہو جائے گی
انتظار وصل کرنا عمر بھر ممکن تو ہے
گو نہیں معلوم حالت کیا سے کیا ہو جائے گی
محتسب اور ہم ہیں دونوں متفق اس باب میں
برملا جو مے کشی ہو بے ریا ہو جائے گی
میں ابھی سے جان دے دوں گا جو راہ عشق میں
انتہا مجنوں کی میری ابتدا ہو جائے گی
فاش راز دل نہیں کرتا مگر یہ ڈر تو ہے
بے خودی میں آہ لب سے آشنا ہو جائے گی
باریاب خواب گاہ ناز ہونے دو اسے
ان کی زلفوں میں پریشاں خود صبا ہو جائے گی
مقصد الفت کو کر لو پہلے شیداؔ دل نشیں
ورنہ ہر آہ و فغاں بے مدعا ہو جائے گی
غزل
درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی
حکیم محمد اجمل خاں شیدا