کس عجب ساعت نایاب میں آیا ہوا ہوں
تجھ سے ملنے میں ترے خواب میں آیا ہوا ہوں
پھر وہی میں ہوں، وہی ہجر کا دریائے عمیق
کوئی دم عکس سر آب میں آیا ہوا ہوں
کیسے آئینے کے مانند چمکتا ہوا میں
عشق کے شہر ابد تاب میں آیا ہوا ہوں
میری ہر تان ہے از روز ازل تا بہ ابد
ایک سر کے لیے مضراب میں آیا ہوا ہوں
کوئی پرچھائیں کبھی جسم سے کرتی ہے کلام؟
بے سبب سایۂ مہتاب میں آیا ہوا ہوں
ہر گزرتے ہوئے لمحے میں ٹپکتا ہوا میں
درد ہوں، وقت کے اعصاب میں آیا ہوا ہوں
کیسی گہرائی سے نکلا ہوں عدم کی عرفانؔ
کیسے پایاب سے تالاب میں آیا ہوا ہوں
غزل
کس عجب ساعت نایاب میں آیا ہوا ہوں
عرفان ستار