جی چاہے گا جس کو اسے چاہا نہ کریں گے
ہم عشق و ہوس کو کبھی یکجا نہ کریں گے
اے کاش چھٹیں عہد شکن بن کے جہاں میں
باز آئے وفاداری کا دعویٰ نہ کریں گے
گو حسن پرستی نہ ہو خاطر سے فراموش
خوش قامتوں کا یاد سراپا نہ کریں گے
نرگس کی شب تیرہ میں لوٹیں گے بہاریں
پر سرمگیں آنکھوں کی تمنا نہ کریں گے
بہلائیں گے سیر گل و شبنم سے دل اپنا
اس عارض گل رنگ کی پروا نہ کریں گے
انگاروں پہ لوٹیں گے پر ان شعلہ رخوں کے
نظارہ سے ہم آنکھ بھی سینکا نہ کریں گے
عصمت کا انہیں خوف ہے تقویٰ کا ہمیں پاس
نے کی ہے کبھی خواہش بے جا نہ کریں گے
بکنے کے شہیدیؔ کے برا مانیو مت جان
ہیں عاشق صادق کبھی ایسا نہ کریں گے
غزل
جی چاہے گا جس کو اسے چاہا نہ کریں گے
کرامت علی شہیدی