کوئی تو ترک مراسم پہ واسطہ رہ جائے
وہ ہم نوا نہ رہے صورت آشنا رہ جائے
عجب نہیں کہ مرا بوجھ بھی نہ مجھ سے اٹھے
جہاں پڑا ہے زر جاں وہیں پڑا رہ جائے
میں سوچتا ہوں مجھے انتظار کس کا ہے
کواڑ رات کو گھر کا اگر کھلا رہ جائے
کسے خبر کہ اسی فرش سنگ پر سو جاؤں
مرے مکان میں بستر مرا بچھا رہ جائے
ظفرؔ ہے بہتری اس میں کہ میں خموش رہوں
کھلے زبان تو عزت کسی کی کیا رہ جائے
غزل
کوئی تو ترک مراسم پہ واسطہ رہ جائے
صابر ظفر