EN हिंदी
حسین شیاری | شیح شیری

حسین

110 شیر

آؤ حسن یار کی باتیں کریں
زلف کی رخسار کی باتیں کریں

چراغ حسن حسرت




رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے

داغؔ دہلوی




شوخی سے ٹھہرتی نہیں قاتل کی نظر آج
یہ برق بلا دیکھیے گرتی ہے کدھر آج

داغؔ دہلوی




حسن کو دنیا کی آنکھوں سے نہ دیکھ
اپنی اک طرز نظر ایجاد کر

احسان دانش




شورش عشق میں ہے حسن برابر کا شریک
سوچ کر جرم تمنا کی سزا دو ہم کو

احسان دانش




بڑا وسیع ہے اس کے جمال کا منظر
وہ آئینے میں تو بس مختصر سا رہتا ہے

فرحت احساس




وہ چاند کہہ کے گیا تھا کہ آج نکلے گا
تو انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں شام سے میں

فرحت احساس