EN हिंदी
حسین شیاری | شیح شیری

حسین

110 شیر

پوچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں

wipe not the droplets from your face, let beauty's lustre grow
drops of dew when flowers grace, enhance their freshness so

قمر جلالوی




تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول
صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار

قمر جلالوی




اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں

قتیل شفائی




آئنہ دیکھ کے کہتے ہیں سنورنے والے
آج بے موت مریں گے مرے مرنے والے

on seeing her own reflection she is moved to say
ere their time, my paramours shall perish this day

رشید رامپوری




کوہ سنگین حقائق تھا جہاں
حسن کا خواب تراشا ہم نے

روش صدیقی




چاندنی راتوں میں چلاتا پھرا
چاند سی جس نے وہ صورت دیکھ لی

رند لکھنوی




کشمیر کی وادی میں بے پردہ جو نکلے ہو
کیا آگ لگاؤ گے برفیلی چٹانوں میں

ساغرؔ اعظمی