دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں
جاں نثاراختر
اب تو تیرے حسن کی ہر انجمن میں دھوم ہے
جس نے میرا حال دیکھا تیرا دیوانہ ہوا
جمیل یوسف
برقع پوش پٹھانی جس کی لاج میں سو سو روپ
کھل کے نہ دیکھی پھر بھی دیکھی ہم نے چھاؤں میں دھوپ
جمیل الدین عالی
روز اک محفل اور ہر محفل ناریوں سے بھرپور
پاس بھی ہوں تو جان کے بیٹھیں عالؔی سب سے دور
جمیل الدین عالی
حسن کے ہر جمال میں پنہاں
میری رعنائی خیال بھی ہے
جگر مراد آبادی
حسن کو بھی کہاں نصیب جگرؔ
وہ جو اک شے مری نگاہ میں ہے
جگر مراد آبادی
اتنے حجابوں پر تو یہ عالم ہے حسن کا
کیا حال ہو جو دیکھ لیں پردہ اٹھا کے ہم
جگر مراد آبادی