EN हिंदी
حسین شیاری | شیح شیری

حسین

110 شیر

تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے
تیرے آگے چاند پرانا لگتا ہے

کیف بھوپالی




تجھے کون جانتا تھا مری دوستی سے پہلے
ترا حسن کچھ نہیں تھا مری شاعری سے پہلے

کیف بھوپالی




زمانہ حسن نزاکت بلا جفا شوخی
سمٹ کے آ گئے سب آپ کی اداؤں میں

کالی داس گپتا رضا




ہمیشہ آگ کے دریا میں عشق کیوں اترے
کبھی تو حسن کو غرق عذاب ہونا تھا

کرامت علی کرامت




روشنی کے لیے دل جلانا پڑا
کیسی ظلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد

خمارؔ بارہ بنکوی




وہ تغافل شعار کیا جانے
عشق تو حسن کی ضرورت ہے

خورشید ربانی




ہے سایہ چاندنی اور چاند مکھڑا
دوپٹا آسمان آسماں ہے

خواجہ محمد وزیر لکھنوی