EN हिंदी
حج شیاری | شیح شیری

حج

86 شیر

دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو

ابن انشا




تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں

افتخار عارف




اس سنگ دل کے ہجر میں چشموں کو اپنے آہ
مانند آبشار کیا ہم نے کیا کیا

انشاءؔ اللہ خاں




بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے

عرفانؔ صدیقی




توڑا ہے دم ابھی ابھی بیمار ہجر نے
آئے مگر حضور کو تاخیر ہو گئی

جگت موہن لال رواںؔ




ترا وصل ہے مجھے بے خودی ترا ہجر ہے مجھے آگہی
ترا وصل مجھ کو فراق ہے ترا ہجر مجھ کو وصال ہے

جلال الدین اکبر




ہم کہاں اور تم کہاں جاناں
ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں

جون ایلیا