EN हिंदी
حج شیاری | شیح شیری

حج

86 شیر

جو غزل آج ترے ہجر میں لکھی ہے وہ کل
کیا خبر اہل محبت کا ترانہ بن جائے

احمد فراز




کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے

احمد فراز




ہجر اک وقفۂ بیدار ہے دو نیندوں میں
وصل اک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں

احمد مشتاق




ملنے کی یہ کون گھڑی تھی
باہر ہجر کی رات کھڑی تھی

احمد مشتاق




یہی دنیا تھی مگر آج بھی یوں لگتا ہے
جیسے کاٹی ہوں ترے ہجر کی راتیں کہیں اور

احمد مشتاق




خدا کرے کہ تری عمر میں گنے جائیں
وہ دن جو ہم نے ترے ہجر میں گزارے تھے

احمد ندیم قاسمی




مر جاتا ہوں جب یہ سوچتا ہوں
میں تیرے بغیر جی رہا ہوں

احمد ندیم قاسمی