EN हिंदी
حج شیاری | شیح شیری

حج

86 شیر

ہجر کی رات کاٹنے والے
کیا کرے گا اگر سحر نہ ہوئی

عزیز لکھنوی




خود چلے آؤ یا بلا بھیجو
رات اکیلے بسر نہیں ہوتی

عزیز لکھنوی




میں تیرے ہجر میں جینے سے ہو گیا تھا اداس
پہ گرم جوشی سے کیا کیا منایا اشک مرا

باقر آگاہ ویلوری




تجھ ہجر کی اگن کوں بوجھانے اے سنگ دل
کوئی آب زن رفیق بجز چشم تر نہیں

داؤد اورنگ آبادی




کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی

فیض احمد فیض




وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے

فیض احمد فیض




ہجر میں مسکرائے جا دل میں اسے تلاش کر
ناز ستم اٹھائے جا راز ستم نہ فاش کر

فانی بدایونی