لے میرے تجربوں سے سبق اے مرے رقیب
دو چار سال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں
قتیل شفائی
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
قتیل شفائی
تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو
اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں
قتیل شفائی
تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ
تندرستی ہزار نعمت ہے
قربان علی سالک بیگ
ٹیگز:
| مشہور |
| 2 لائنیں شیری |
دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
راحتؔ اندوری
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
راحتؔ اندوری
نہ جھٹکو زلف سے پانی یہ موتی ٹوٹ جائیں گے
تمہارا کچھ نہ بگڑے گا مگر دل ٹوٹ جائیں گے
راجیندر کرشن