EN हिंदी
مشہور شیاری | شیح شیری

مشہور

248 شیر

لے میرے تجربوں سے سبق اے مرے رقیب
دو چار سال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں

قتیل شفائی




مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو

قتیل شفائی




تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو
اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں

قتیل شفائی




تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ
تندرستی ہزار نعمت ہے

قربان علی سالک بیگ




دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

راحتؔ اندوری




اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

راحتؔ اندوری




نہ جھٹکو زلف سے پانی یہ موتی ٹوٹ جائیں گے
تمہارا کچھ نہ بگڑے گا مگر دل ٹوٹ جائیں گے

راجیندر کرشن