اٹھتے ہوئے طوفان کا منظر نہیں دیکھا
دیکھو مجھے گر تم نے سمندر نہیں دیکھا
گزرا ہوا لمحہ تھا کہ بہتا ہوا دریا
پھر میری طرف اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا
اک دشت ملا کوچۂ جاناں سے نکل کر
ہم نے تو کبھی عشق کو بے گھر نہیں دیکھا
تھے سنگ تو بیتاب بہت نقش گری کو
ہم نے ہی انہیں آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا
اک عمر سے ہے جو مری وحشت کا ٹھکانہ
خوشیوں کی طرح تو نے بھی وہ گھر نہیں دیکھا
نفرت بھی اسی سے ہے پرستش بھی اسی کی
اس دل سا کوئی ہم نے تو کافر نہیں دیکھا
خواہش کو یہاں حسب ضرورت نہیں پایا
حاصل کو یہاں حسب مقدر نہیں دیکھا
ہر حال میں دیکھا ہے اسے ضبط کا پیکر
تشنہؔ کو کبھی ظرف سے باہر نہیں دیکھا
غزل
اٹھتے ہوئے طوفان کا منظر نہیں دیکھا
عالم تاب تشنہ