اک خواب کہ جو آنکھ بھگونے کے لیے ہے
اک یاد کہ سینے میں چبھونے کے لیے ہے
اک زخم کہ سب زخم بھلا ڈالے ہیں جس نے
اک غم کہ جو تا عمر بھلانے کے لیے ہے
اک روح کہ سونا ہے مگر میل بھری بھی
اک آگ اسی میل کو دھونے کے لیے ہے
آنکھوں میں ابھی دھول سی لمحوں کی جمی ہے
دل میں کوئی سیلاب سا رونے کے لیے ہے
دل کو تو بہت پہلے سے دھڑکا سا لگا تھا
پانا ترا شاید تجھے کھونے کے لیے ہے
کشتی کا یہ ہچکولا یہ ملاح کا چکر
کشتی کو نہیں مجھ کو ڈبونے کے لیے ہے
تقدیر سے لڑ سکتا ہے کوئی کہاں حیدرؔ
وہ حادثہ ہونا ہے جو ہونے کے لیے ہے
غزل
اک خواب کہ جو آنکھ بھگونے کے لیے ہے
حیدر قریشی