حسن جب مقتل کی جانب تیغ براں لے چلا
عشق اپنے مجرموں کو پا بہ جولاں لے چلا
آرزوئے دید جاناں بزم میں لائی مجھے
بزم سے میں آرزوئے دید جاناں لے چلا
بسملوں کو زخم زخموں کو مبارک لذتیں
سوئے مقتل پھر کوئی تیغ و نمک داں لے چلا
خون ناحق کی حیا بولی ذرا منہ ڈھانک لو
ناز جب ان کو سر خاک شہیداں لے چلا
کٹ گیا عاشق سر بازار سودا بک گیا
جان لیلیٰ عشق نے دل حسن خوباں لے چلا
خاک عاشق روکنے کو دور تک لپٹی گئی
جب سمند ناز کو وہ گرم جولاں لے چلا
میرے گھر تک پاؤں پڑ کر ان کو لایا تھا نیاز
ناز دامن کھینچتا سوئے رقیباں لے چلا
دل کو جاناں سے حسنؔ سمجھا بجھا کے لائے تھے
دل ہمیں سمجھا بجھا کر سوئے جاناں لے چلا
غزل
حسن جب مقتل کی جانب تیغ براں لے چلا
حسن بریلوی