جانے کیا ہوگا ہر اک دل کو یہ دھڑکا کیا ہے
دور تک پھیلا ہوا خوف کا سایہ کیا ہے
بحر و بر وادی و صحرا میں ہے ہلچل کیسی
یہ افق تا بہ افق شور سا برپا کیا ہے
بین کرتی ہوئی چلتی ہے ہوا کیوں سر شام
دل کا مارا کوئی راتوں کو سسکتا کیا ہے
کیا ہے یہ سوز دروں جس سے سلگتا ہے بدن
جو بھڑکتا ہے دل و جاں میں وہ شعلہ کیا ہے
دم بہ دم اٹھتی ہیں کس یاد کی لہریں دل میں
درد رہ رہ کے یہ کروٹ سی بدلتا کیا ہے
کیسی تلخی ہے کہ نس نس میں بسی جاتی ہے
زہر سا کوئی رگ و پے میں اترتا کیا ہے
بجھ گئی شمع نظر جب تو وہ چہرہ چمکا
دل جو ڈوبا ہے تو اب چاند سا نکلا کیا ہے
غزل
جانے کیا ہوگا ہر اک دل کو یہ دھڑکا کیا ہے
جمال پانی پتی