EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

منظروں کے بھی پرے ہیں منظر
آنکھ جو ہو تو نظر جائے جی

عبد اللہ جاوید




پھر نئی ہجرت کوئی درپیش ہے
خواب میں گھر دیکھنا اچھا نہیں

عبد اللہ جاوید




ساحل پہ لوگ یوں ہی کھڑے دیکھتے رہے
دریا میں ہم جو اترے تو دریا اتر گیا

عبد اللہ جاوید




سجاتے ہو بدن بے کار جاویدؔ
تماشا روح کے اندر لگے گا

عبد اللہ جاوید




شاعری پیٹ کی خاطر جاویدؔ
بیچ بازار کے آ بیٹھی ہے

عبد اللہ جاوید




ترک کرنی تھی ہر اک رسم جہاں
ہاں مگر رسم وفا رکھنی ہی تھی

عبد اللہ جاوید




تم اپنے عکس میں کیا دیکھتے ہو
تمہارا عکس بھی تم سا نہیں ہے

عبد اللہ جاوید