کبھی پیارا کوئی منظر لگے گا
بدلنے میں اسے دم بھر لگے گا
نہیں ہو تم تو گھر جنگل لگے ہے
جو تم ہو ساتھ جنگل گھر لگے گا
ابھی ہے رات باقی وحشتوں کی
ابھی جاؤگے گھر تو ڈر لگے گا
کبھی پتھر پڑیں گے سر کے اوپر
کبھی پتھر کے اوپر سر لگے گا
در و دیوار کے بدلیں گے چہرے
خود اپنا گھر پرایا گھر لگے گا
چلیں گے پاؤں اس کوچے کی جانب
مگر الزام سب دل پر لگے گا
ہم اپنے دل کی بابت کیا بتائیں
کبھی مسجد کبھی مندر لگے گا
اگر تم مارنے والوں میں ہوگے
تمہارا پھول بھی پتھر لگے گا
کہاں لے کر چلو گے سچ کا پرچم
مقابل جھوٹ کا لشکر لگے گا
ہلاکو آج کا بغداد دیکھے
تو اس کی روح کو بھی ڈر لگے گا
زمیں کو اور اونچا مت اٹھاؤ
زمیں کا آسماں سے سر لگے گا
جو اچھے کام ہوں گے ان سے ہوں گے
برا ہر کام اپنے سر لگے گا
سجاتے ہو بدن بے کار جاویدؔ
تماشا روح کے اندر لگے گا
غزل
کبھی پیارا کوئی منظر لگے گا
عبد اللہ جاوید