جو گزرتا ہے گزر جائے جی
آج وہ کر لیں کہ بھر جائے جی
آج کی شب یہیں جینا مرنا
جس کو جانا ہو وہ گھر جائے جی
اس گلی سے نہیں جانا ہم کو
آن رخصت ہو کہ سر جائے جی
وقت نے کر دیا جو کرنا تھا
کوئی مرتا ہے تو مر جائے جی
شاخ گل موج ہوا رقصاں ہیں
پھول بکھرے تو بکھر جائے جی
منظروں کے بھی پرے ہیں منظر
آنکھ جو ہو تو نظر جائے جی
سمت کیا راہ کیا منزل کیسی
چل پڑو آپ جدھر جائے جی
اپنی ہی سوچ پہ چلنا چاہے
اپنی ہی سوچ سے ڈر جائے جی
یہ عجب بات ہے اکثر جاویدؔ
جس سے روکیں وہی کر جائے جی
غزل
جو گزرتا ہے گزر جائے جی
عبد اللہ جاوید