EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جگر میں لعل کے آتش پڑی ہے
مگر تجھ لب اوپر ہاں کی دھڑی ہے

عبدالوہاب یکروؔ




جو توں مرغا نہیں ہے اے زاہد
کیوں سحر گاہ دے ہے اٹھ کے بانگ

عبدالوہاب یکروؔ




کماں ابرو نپٹ شہ زور ہے گا
کہ شاخ آشنائی توڑ ڈالی

عبدالوہاب یکروؔ




خم محراب ابرواں کے بیچ
کام آنکھوں کا ہے امامت کا

عبدالوہاب یکروؔ




نہ ہووے کیوں کے گردوں پہ صدا دل کی بلند اپنی
ہماری آہ ہے ڈنکا دمامے کے بجانے کا

عبدالوہاب یکروؔ




پیاسا مت جلا ساقی مجھے گرمی سیں ہجراں کی
شتابی لا شراب خام ہم نے دل کو بھونا ہے

عبدالوہاب یکروؔ




رقیبان سیہ رو شہر دہلی کے مصاحب ہیں
گندا نالا بھی جا کر مل رہا ہے دیکھ جمنا کوں

عبدالوہاب یکروؔ