یاد یوں ہوش گنوا بیٹھی ہے
جسم سے جان جدا بیٹھی ہے
راہ تکنا ہے عبث سو جاؤ
دھوپ دیوار پہ آ بیٹھی ہے
آشیانے کا خدا ہی حافظ
گھات میں تیز ہوا بیٹھی ہے
دست گلچیں سے مروت کیسی
شاخ پھولوں کو گنوا بیٹھی ہے
کیسے آئے کسی گلشن میں بہار
دشت میں آبلہ پا بیٹھی ہے
شہر آسیب زدہ لگتا ہے
کوچے کوچے میں بلا بیٹھی ہے
چار کمروں کے مکاں میں اپنے
اک پچھل پائی بھی آ بیٹھی ہے
شاعری پیٹ کی خاطر جاویدؔ
بیچ بازار کے آ بیٹھی ہے
غزل
یاد یوں ہوش گنوا بیٹھی ہے
عبد اللہ جاوید