چمکا جو چاند رات کا چہرہ نکھر گیا
مانگے کا نور بھی تو بڑا کام کر گیا
یہ بھی بہت ہے سینکڑوں پودے ہرے ہوئے
کیا غم جو بارشوں میں کوئی پھول مر گیا
ساحل پہ لوگ یوں ہی کھڑے دیکھتے رہے
دریا میں ہم جو اترے تو دریا اتر گیا
سایہ بھی آپ کا ہے فقط روشنی کے ساتھ
ڈھونڈوگے تیرگی میں کہ سایہ کدھر گیا
ہم جس کے انتظار میں جاگے تمام رات
آیا بھی وہ تو خواب کی صورت گزر گیا
ہم نے تو گل کی چاند کی تارے کی بات کی
سب اہل انجمن کا گماں آپ پر گیا
گھر ہی نہیں رہا ہے سلامت بتائیں کیا
جاویدؔ کے بعد سیل بلا کس کے گھر گیا
غزل
چمکا جو چاند رات کا چہرہ نکھر گیا
عبد اللہ جاوید