EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میں بھی تالاب کا ٹھہرا ہوا پانی تھا کبھی
ایک پتھر نے رواں دھار کیا ہے مجھ کو

عبد الرحیم نشتر




میں تیری چاہ میں جھوٹا ہوس میں سچا ہوں
برا سمجھ لے مگر دوسروں سے اچھا ہوں

عبد الرحیم نشتر




پتھر نے پکارا تھا میں آواز کی دھن میں
موجوں کی طرح چاروں طرف پھیل گیا ہوں

عبد الرحیم نشتر




پھٹے پرانے بدن سے کسے خرید سکوں
سجے ہیں کانچ کے پیکر بڑی دکانوں میں

عبد الرحیم نشتر




اس نے چلتے چلتے لفظوں کا زہراب
میرے جذبوں کی پیالی میں ڈال دیا

عبد الرحیم نشتر




وہ اجنبی تری بانہوں میں جو رہا شب بھر
کسے خبر کہ وہ دن بھر کہاں رہا ہوگا

عبد الرحیم نشتر




وہ سو رہا ہے خدا دور آسمانوں میں
فرشتے لوریاں گاتے ہیں اس کے کانوں میں

عبد الرحیم نشتر