EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میں تجھ کو جاگتی آنکھوں سے چھو سکوں نہ کبھی
مری انا کا بھرم رکھ لے میرے خواب میں آ

عبد اللہ کمال




تم تو اے خوشبو ہواؤ اس سے مل کر آ گئیں
ایک ہم تھے زخم تنہائی ہرا کرتے رہے

عبد اللہ کمال




وہ قیامت تھی کہ ریزہ ریزہ ہو کے اڑ گیا
اے زمیں ورنہ کبھی اک آسماں میرا بھی تھا

عبد اللہ کمال




گلچیں بہار گل میں نہ کر منع سیر باغ
کیا ہم غبار دامن باد صبا کے ہیں

عبداللہ خاں مہر لکھنوی




آواز دے رہا ہے اکیلا خدا مجھے
میں اس کو سن رہا ہوں ہواؤں کے کان سے

عبد الرحیم نشتر




اپنی ہی ذات کے صحرا میں سلگتے ہوئے لوگ
اپنی پرچھائیں سے ٹکرائے ہیولوں سے ملے

عبد الرحیم نشتر




دیکھ رہا تھا جاتے جاتے حسرت سے
سوچ رہا ہوگا میں اس کو روکوں گا

عبد الرحیم نشتر