EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جی نہ سکوں میں جس کے بغیر
اکثر یاد نہ آیا وہ

اطہر نفیس




کبھی سایہ ہے کبھی دھوپ مقدر میرا
ہوتا رہتا ہے یوں ہی قرض برابر میرا

اطہر نفیس




خوابوں کے افق پر ترا چہرہ ہو ہمیشہ
اور میں اسی چہرے سے نئے خواب سجاؤں

اطہر نفیس




کسی نا خواندہ بوڑھے کی طرح خط اس کا پڑھتا ہوں
کہ سو سو بار اک اک لفظ سے انگلی گزرتی ہے

اطہر نفیس




لمحوں کے عذاب سہ رہا ہوں
میں اپنے وجود کی سزا ہوں

اطہر نفیس




میں تیرے قریب آتے آتے
کچھ اور بھی دور ہو گیا ہوں

اطہر نفیس




اس نے مری نگاہ کے سارے سخن سمجھ لیے
پھر بھی مری نگاہ میں ایک سوال ہے نیا

اطہر نفیس