چپ چاپ حبس وقت کے پنجرے میں مر گیا
جھونکا ہوا کا آتے ہی کمرے میں مر گیا
سورج لحاف اوڑھ کے سویا تمام رات
سردی سے اک پرندہ دریچے میں مر گیا
جو ناخدا کو کہہ نہ سکا عمر بھر خدا
وہ شخص کل انا کے جزیرے میں مر گیا
ایڈیٹری نے کاٹ دیں تخلیق کی رگیں
اچھا بھلا ادیب رسالے میں مر گیا
سورج نے آنسوؤں کی توانائی چھین لی
شبنم سا شخص دھوپ کے قصبے میں مر گیا
اس مرتبہ بھی سچی گواہی اسی نے دی
اس مرتبہ مگر وہ کٹہرے میں مر گیا
ناسکؔ وہ اپنی ذات میں منزل سے کم نہ تھا
وہ رہرو حیات جو رستے میں مر گیا
غزل
چپ چاپ حبس وقت کے پنجرے میں مر گیا
اطہر ناسک