غم کے بادل دل ناشاد پہ ایسے چھائے
سایۂ گل میں بھی ہم راز نہ ہنسنے پائے
یوں تصور میں دبے پاؤں تری یاد آئی
جس طرح شام کی بانہوں میں ستارے آئے
وقت کی دھوپ میں ہم سایۂ حسرت بن کر
دو گھڑی کوئے تمنا میں نہ چلنے پائے
زندگی موج تلاطم کی طرح رک نہ سکی
یوں تو ہر موڑ پہ طوفان ہزاروں آئے
اس سے منزل کا پتہ پوچھ رہی ہے دنیا
جس کا منزل کے تصور سے بھی جی گھبرائے
رازؔ احساس کے آنگن میں ہوں تنہا تنہا
گھپ اندھیرا ہے مگر ساتھ ہیں غم کے سائے
غزل
غم کے بادل دل ناشاد پہ ایسے چھائے
اطہر راز