یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں
پھر اس کے بعد مجھے حرف حرف ہونا ہے
تمہارے ہاتھ میں دیوان کچھ دنوں کا ہوں
کسی بھی دن اسے سر سے اتار پھینکوں گا
میں خود پہ بوجھ مری جان کچھ دنوں کا ہوں
زمین زادے مری عمر کا حساب نہ کر
اٹھا کے دیکھ لے میزان کچھ دنوں کا ہوں
مجھے یہ دکھ ہے کہ حشرات غم تمہارے لئے
میں خورد و نوش کا سامان کچھ دنوں کا ہوں
غزل
یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں
اطہر ناسک