EN हिंदी
یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں | شیح شیری
yaqin barson ka imkan kuchh dinon ka hun

غزل

یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں

اطہر ناسک

;

یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں

پھر اس کے بعد مجھے حرف حرف ہونا ہے
تمہارے ہاتھ میں دیوان کچھ دنوں کا ہوں

کسی بھی دن اسے سر سے اتار پھینکوں گا
میں خود پہ بوجھ مری جان کچھ دنوں کا ہوں

زمین زادے مری عمر کا حساب نہ کر
اٹھا کے دیکھ لے میزان کچھ دنوں کا ہوں

مجھے یہ دکھ ہے کہ حشرات غم تمہارے لئے
میں خورد و نوش کا سامان کچھ دنوں کا ہوں