EN हिंदी
کبھی سایہ ہے کبھی دھوپ مقدر میرا | شیح شیری
kabhi saya hai kabhi dhup muqaddar mera

غزل

کبھی سایہ ہے کبھی دھوپ مقدر میرا

اطہر نفیس

;

کبھی سایہ ہے کبھی دھوپ مقدر میرا
ہوتا رہتا ہے یوں ہی قرض برابر میرا

ٹوٹ جاتے ہیں کبھی میرے کنارے مجھ میں
ڈوب جاتا ہے کبھی مجھ میں سمندر میرا

کسی صحرا میں بچھڑ جائیں گے سب یار مرے
کسی جنگل میں بھٹک جائے گا لشکر میرا

باوفا تھا تو مجھے پوچھنے والے بھی نہ تھے
بے وفا ہوں تو ہوا نام بھی گھر گھر میرا

کتنے ہنستے ہوئے موسم ابھی آتے لیکن
ایک ہی دھوپ نے کمھلا دیا منظر میرا

آخری جرعہء پر کیف ہو شاید باقی
اب جو چھلکا تو چھلک جائے گا ساغر میرا