سایا میرا سایا وہ
مجھ میں آن سمایا وہ
دن نکل آیا آنگن میں
رات گئے جب آیا وہ
میرے لہو کی گردش میں
چپکے سے در آیا وہ
میری گلی میں رات گئے
لہراتا اک سایا وہ
غنچہ سا مرے ساتھ گیا
صبح تلک کھل آیا وہ
میری زندہ سانسوں میں
کیسا آن سمایا وہ
قرب کی ہلکی بارش میں
قوس قزح بن آیا وہ
مجھ سے ہوا بے باک مگر
پھولوں سے شرمایا وہ
ہجر کے تپتے صحرا میں
میری طرح کمہلایا وہ
جی نہ سکوں میں جس کے بغیر
اکثر یاد نہ آیا وہ
ناصرؔ سچا شاعر تھا
آج بہت یاد آیا وہ
کیسے کیسے روپ لیے
شہر غزل میں آیا وہ
غزل
سایا میرا سایا وہ
اطہر نفیس