لمحوں کے عذاب سہ رہا ہوں
میں اپنے وجود کی سزا ہوں
زخموں کے گلاب کھل رہے ہیں
خوشبو کے ہجوم میں کھڑا ہوں
اس دشت طلب میں ایک میں بھی
صدیوں کی تھکی ہوئی صدا ہوں
اس شہر طرب کے شور و غل میں
تصویر سکوت بن گیا ہوں
بے نام و نمود زندگی کا
اک بوجھ اٹھائے پھر رہا ہوں
شاید نہ ملے مجھے رہائی
یادوں کا اسیر ہو گیا ہوں
اک ایسا چمن ہے جس کی خوشبو
سانسوں میں بسائے پھر رہا ہوں
اک ایسی گلی ہے جس کی خاطر
درماندہ کو بہ کو رہا ہوں
اک ایسی زمیں ہے جس کو چھو کر
تقدیس حرم سے آشنا ہوں
اے مجھ کو فریب دینے والے
میں تجھ پہ یقین کر چکا ہوں
میں تیرے قریب آتے آتے
کچھ اور بھی دور ہو گیا ہوں
غزل
لمحوں کے عذاب سہ رہا ہوں
اطہر نفیس