دل اک نئی دنیائے معانی سے ملا ہے
یہ پھل بھی ہمیں نقل مکانی سے ملا ہے
جو نام کبھی نقش تھا دل پر وہ نہیں یاد
اب اس کا پتا یاد دہانی سے ملا ہے
یہ درد کی دہلیز پہ سر پھوڑتی دنیا
اس کا بھی سرا میری کہانی سے ملا ہے
کھوئے ہوئے لوگوں کا سراغ اہل سفر کو
جلتے ہوئے خیموں کی نشانی سے ملا ہے
خاطر میں کسی کو بھی نہ لانے کا یہ انداز
بپھری ہوئی موجوں کی روانی سے ملا ہے
لفظوں میں ہر اک رنج سمونے کا قرینہ
اس آنکھ میں ٹھہرے ہوئے پانی سے ملا ہے
یہ صبح کی آغوش میں کھلتا ہوا منظر
اک سلسلۂ شب کی گرانی سے ملا ہے
غزل
دل اک نئی دنیائے معانی سے ملا ہے
اشفاق حسین