EN हिंदी
گرتی ہے تو گر جائے یہ دیوار سکوں بھی | شیح شیری
girti hai to gir jae ye diwar-e-sukun bhi

غزل

گرتی ہے تو گر جائے یہ دیوار سکوں بھی

اشفاق حسین

;

گرتی ہے تو گر جائے یہ دیوار سکوں بھی
جینے کے لیے چاہیئے تھوڑا سا جنوں بھی

یہ کیسی انا ہے مرے اندر کہ مسلسل
دیکھوں اسے لیکن نظر انداز کروں بھی

کھل کر تو وہ مجھ سے کبھی ملتا ہی نہیں ہے
اور اس سے بچھڑ جانے کا امکان ہے یوں بھی

ایسی بھی کوئی خاص تعلق کی فضا ہو
محفل میں جب اس کی نہ رہوں اور رہوں بھی

وہ راز جو بس اس کی نگاہوں نے پڑھا ہے
جی چاہتا ہے میں اسے ہونٹوں سے کہوں بھی

اس وقت کہیں جا کے غزل ہوگی مکمل
آنکھوں سے ٹپک جائے جو اک قطرۂ خوں بھی