ذرا ذرا ہی سہی آشنا تو میں بھی ہوں
تمہارے زخم کو پہچانتا تو میں بھی ہوں
نہ جانے کون سی آنکھوں سے دیکھتے ہو مجھے
تمہاری طرح سے ٹوٹا ہوا تو میں بھی ہوں
تمہی پہ ختم نہیں مہر و ماہ کی گردش
شکست خواب کا اک سلسلہ تو میں بھی ہوں
تمہیں منانے کا مجھ کو خیال کیا آئے
کہ اپنے آپ سے روٹھا ہوا تو میں بھی ہوں
مجھے بتا کوئی تدبیر رت بدلنے کی
کہ میں اداس ہوں یہ جانتا تو میں بھی ہوں
تلاش اپنی خود اپنے وجود کو کھو کر
یہ کار عشق ہے اس میں لگا تو میں بھی ہوں
رموز حرف نہ ہاتھ آئے ورنہ اے اشفاقؔ
زمانے بھر سے الگ سوچتا تو میں بھی ہوں

غزل
ذرا ذرا ہی سہی آشنا تو میں بھی ہوں
اشفاق حسین