شاید مری نگاہ میں کوئی شگاف تھا
ورنہ اداس رات کا چہرہ تو صاف تھا
اک لاش تیرتی رہی برفیلی جھیل میں
جھوٹی تسلیوں کا امیں زیر ناف تھا
بوسوں کی راکھ میں تھے سلگتے شرار لمس
چہرے کی سلوٹوں میں کوئی انکشاف تھا
دوزخ کے گرد گونگے فرشتے تھے محو رقص
اور پسلیوں کی ٹیس پہ میلا غلاف تھا
کھڑکی سے جھانکتا ہوا وہ پر غرور سر
تازہ ہوا سے اس کا کوئی اختلاف تھا
رستے فرار کے سبھی مسدود تو نہ تھے
اپنی شکست کا مجھے کیوں اعتراف تھا
غزل
شاید مری نگاہ میں کوئی شگاف تھا
اشعر نجمی