EN हिंदी
شاید مری نگاہ میں کوئی شگاف تھا | شیح شیری
shayad meri nigah mein koi shigaf tha

غزل

شاید مری نگاہ میں کوئی شگاف تھا

اشعر نجمی

;

شاید مری نگاہ میں کوئی شگاف تھا
ورنہ اداس رات کا چہرہ تو صاف تھا

اک لاش تیرتی رہی برفیلی جھیل میں
جھوٹی تسلیوں کا امیں زیر ناف تھا

بوسوں کی راکھ میں تھے سلگتے شرار لمس
چہرے کی سلوٹوں میں کوئی انکشاف تھا

دوزخ کے گرد گونگے فرشتے تھے محو رقص
اور پسلیوں کی ٹیس پہ میلا غلاف تھا

کھڑکی سے جھانکتا ہوا وہ پر غرور سر
تازہ ہوا سے اس کا کوئی اختلاف تھا

رستے فرار کے سبھی مسدود تو نہ تھے
اپنی شکست کا مجھے کیوں اعتراف تھا