ہم جنوں پیشہ کہ رہتے تھے تری ذات میں گم
ہو گئے سلسلۂ گردش حالات میں گم
عرصۂ وصل میں بھی حرف تمنا نہ کھلا
حسن الہام رہا پردۂ آیات میں گم
عقل انگشت بدنداں ہے نظر حیراں ہے
کون سی چیز ہوئی ارض و سماوات میں گم
کتنے کنعان ہوئے خواب زلیخا میں اسیر
کتنے یعقوب رہے ہجر کے صدمات میں گم
کوئی مائل بہ سماعت نہ ہوا صد افسوس!
نغمۂ درد رہا سینۂ جذبات میں گم
میں ترے شہر سے گزرا ہوں بگولے کی طرح
اپنی دنیا میں مگن اپنے خیالات میں گم
غزل
ہم جنوں پیشہ کہ رہتے تھے تری ذات میں گم
ارشد محمود ناشاد