EN हिंदी
ہم جنوں پیشہ کہ رہتے تھے تری ذات میں گم | شیح شیری
hum junun pesha ki rahte the teri zat mein gum

غزل

ہم جنوں پیشہ کہ رہتے تھے تری ذات میں گم

ارشد محمود ناشاد

;

ہم جنوں پیشہ کہ رہتے تھے تری ذات میں گم
ہو گئے سلسلۂ گردش حالات میں گم

عرصۂ وصل میں بھی حرف تمنا نہ کھلا
حسن الہام رہا پردۂ آیات میں گم

عقل انگشت بدنداں ہے نظر حیراں ہے
کون سی چیز ہوئی ارض و سماوات میں گم

کتنے کنعان ہوئے خواب زلیخا میں اسیر
کتنے یعقوب رہے ہجر کے صدمات میں گم

کوئی مائل بہ سماعت نہ ہوا صد افسوس!
نغمۂ درد رہا سینۂ جذبات میں گم

میں ترے شہر سے گزرا ہوں بگولے کی طرح
اپنی دنیا میں مگن اپنے خیالات میں گم