میں خاک چھانتا ہوں آفتاب دیکھتا ہوں
حریم دشت میں خوشبو کے خواب دیکھتا ہوں
حصار غیر میں رہتا ہے یہ مکان وجود
میں خلوتوں میں بھی اکثر عذاب دیکھتا ہوں
یہ کیا کہ عہد بہاراں میں ہر شجر بے برگ
یہ کیا کہ فصل خزاں میں گلاب دیکھتا ہوں
مرے خیال میں کھلنے لگے ہیں زخم فراق
تمہارے لطف و کرم کا حساب دیکھتا ہوں
ورق ورق پہ ترے خال و خد ہیں عکس فگن
ہجوم یاس میں دل کی کتاب دیکھتا ہوں
یہ بے سبب تو نہیں گرد رہ گزر ناشادؔ
تلاش آب رواں میں سراب دیکھتا ہوں
غزل
میں خاک چھانتا ہوں آفتاب دیکھتا ہوں
ارشد محمود ناشاد