جو بجھ گئے تھے چراغ پھر سے جلا رہا ہے
یہ کون دل کے کواڑ پھر کھٹکھٹا رہا ہے
مہیب قحط الرجال میں بھی خیال تیرا
نئے مناظر نئے شگوفے کھلا رہا ہے
وہ گیت جس میں تری کہانی سمٹ گئی تھی
اسے نئی طرز میں کوئی گنگنا رہا ہے
میں وسعتوں سے بچھڑ کے تنہا نہ جی سکوں گا
مجھے نہ روکو مجھے سمندر بلا رہا ہے
وہ جس کے دم سے میں اس کی یادوں سے منسلک ہوں
اسے یہ کہنا وہ گھاؤ بھی بھرتا جا رہا ہے
غزل
جو بجھ گئے تھے چراغ پھر سے جلا رہا ہے
ارشد نعیم