وہ جس نے میرے دل و جاں میں درد بویا ہے
کبھی کبھی مری حالت پہ خود بھی رویا ہے
بڑھے ہوئے تھے مری سمت کتنے پیار کے ہاتھ
کہاں یہ لا کے تری یاد نے ڈبویا ہے
جو پھوٹی پلکوں سے کونپل تو جا کے راز کھلا
کہ اس نے غم نہیں سینے میں زہر بویا ہے
تمہیں بتاؤ کہ کس کس سے میں کلام کروں
ہو تم بھی گویا تمہاری نظر بھی گویا ہے
فضا ہے تیرہ و تاریک اور اس کا خیال
نہ جانے کون سی دنیا میں جا کے سویا ہے
چلے پھر اٹھ کے اسی خواب زار میں ارشدؔ
ابھی تو اس کی نظر کا خمار دھویا ہے
غزل
وہ جس نے میرے دل و جاں میں درد بویا ہے
ارشد صدیقی