EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

برسوں بھٹکا کیا اور پھر بھی نہ ان تک پہنچا
گھر تو معلوم تھا رستہ مجھے معلوم نہ تھا

آرزو لکھنوی




بھولے بن کر حال نہ پوچھ بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو

آرزو لکھنوی




بھولی باتوں پہ تیری دل کو یقیں
پہلے آتا تھا اب نہیں آتا

آرزو لکھنوی




بری سرشت نہ بدلی جگہ بدلنے سے
چمن میں آ کے بھی کانٹا گلاب ہو نہ سکا

آرزو لکھنوی




چٹکی جو کلی کوئل کوکی الفت کی کہانی ختم ہوئی
کیا کس نے کہی کیا تو نے سنی یہ بات زمانہ کیا جانے

آرزو لکھنوی




دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

آرزو لکھنوی




دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے
تھے وہی بت وہی خدا ٹھہرے

آرزو لکھنوی