برسوں بھٹکا کیا اور پھر بھی نہ ان تک پہنچا
گھر تو معلوم تھا رستہ مجھے معلوم نہ تھا
آرزو لکھنوی
بھولے بن کر حال نہ پوچھ بہتے ہیں اشک تو بہنے دو
جس سے بڑھے بے چینی دل کی ایسی تسلی رہنے دو
آرزو لکھنوی
بھولی باتوں پہ تیری دل کو یقیں
پہلے آتا تھا اب نہیں آتا
آرزو لکھنوی
بری سرشت نہ بدلی جگہ بدلنے سے
چمن میں آ کے بھی کانٹا گلاب ہو نہ سکا
آرزو لکھنوی
چٹکی جو کلی کوئل کوکی الفت کی کہانی ختم ہوئی
کیا کس نے کہی کیا تو نے سنی یہ بات زمانہ کیا جانے
آرزو لکھنوی
دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر
آرزو لکھنوی
دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے
تھے وہی بت وہی خدا ٹھہرے
آرزو لکھنوی

